ہاری تو پیا میں تیری بقلم ملیحہ چودھری
قسط3
........
دن یوں ہی اپنی رفتار سے بیت رہے تھے" رمضان المبارک کے دو دن باقی تھیں...." شروع ہونے میں " اور پھر رمضان کی اتنی ساری تیاریاں افّفف..... اللہ خیر کرے......وہ اپریل کی ایک اُداس شام تھی۔سورج افق پر غروب ہو رہا تھا۔۔اور اُسکی نارنجی کرنیں آسمان پر بکھری پڑیں تھیں...رات کا اندھیرا اُنہیں اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا.." ایسے میں وہ باہر لاؤنج سے جو دروازہ گارڈن میں کھلتا تھا " وہاں گھٹنوں میں سر دیئے دور افق کو گھورنے میں مصروف تھی..پیلے رنگ کی ٹاپ اور اس پر سفید ٹراؤزر پہنے گلے میں سفید ہی دوپٹہ ڈالے، بالوں کا ڈھیلا سا جُڑا بنائے جس میں سے کچھ آوارہ لٹیں اُسکے گول پیشانی پر بار بار آکر پریشان کر رہی تھی اور وہ انکو بار بار ہی کانوں کے پیچھے اُڑیستی.. آنے والے دنوں کے بارے میں سوچ رہی تھی...
" یا اللہ میں رمضان کے روزے کیسے رکھوں گی.." اففف ......اب سے ہی اتنی گرمی.. نا جانے رمضان میں کیا حال ہوگا میرا۔۔۔؟"وہ خود سے بڑبڑاتی آسمان کو دیکھ رہی تھی...... ہارٹ وچّ ....کہاں ہو بھئی..؟Hu.... ارمان اسکو آواز دیتا وہیں پر آ گیا جہاں انوشے بیٹھی ہوئی تھی..." یار تم یہاں پر بیٹھی ہو....اور وہاں آغا جان کے کمرے میں سب بڑوں کی محفل جمی ہوئی ہے...."
ارمان اُسکے برابر میں بیٹھتے اُسکو بتا رہا تھا.." انوشے نے ایک نظر ارمان کو دیکھا" اور پھر سے آسمان کی طرف دیکھنے لگی..." جیسے بول رہی ہو مجھے تمہاری بات میں کوئی انٹریسٹ نہیں ہے.."پوچھو گی نہیں" کہ کیوں لگی ہے....؟ محفل، ارمان نے پوچھا تھا...." اب تم جب تک نہیں بتاؤگے چین تو تمہیں آنے سے رہا .." جلدی بھوکو اور اپنا راستہ پکڑو.." وہ غصّے سے اُسکی طرف دیکھتی بولی....." ھاھاھاھاھا..... وہ تو ہے...." لیکن راستہ مجھے نہیں اب تم پکڑوگی اور وہ بھی آغا جان کے کمرے کا..." کیونکہ جو نیوز میں لایا ہوں نا..." وہ تمہاری دنیا کو ہلا ڈالے گی....." وہ ہنستا ہوا انوشے کو بتا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ڈرا بھی رہا تھا..... کیا مطلب ہے تمہارا...؟ ہاں...." اور ایسی کون سی نیوز ہے بھئی وہ نیوز نا ہو کر کوئی بُھکمپ ہو گیا.....وہ اسکو گھورتی پھر سے بولی..." ویسے سچ بتاؤں انوشے وہ نیوز تمہارے لئے بُھکمپ سے کم بھی نہیں.." ھاھاھاھاھا وہ اپنی بات کہہ کر ہنسا تھا..." ارمان کے بچّے...دانت فاڑنا بند کرو اور اپنی بات نہیں نہیں اپنی نیوز بھونکو سمجھے..." اب کی بار انوشے کا غصّہ آسمان پر ہی پہنچ گیا تھا..." ہاں ہاں بتا رہا ہوں بھئی غصّہ کیوں ہوتی ہو...؟ " وہ اپنے دانتوں کی نمائش بند کرتا بولا " اور اسکو دیکھتا کہنا شروع ہوا.." تو سنو سب بڑے اس لیے آغا جان کے روم میں اکھٹا ہوئے ہیں....." کیونکہ ہم سب کے مزے آنے والے ہے...." وہ بات کو درمیان میں ہی روکتے خوشی سے چلّاتیں بولا تھا۔۔۔" اور انوشے نے اسکو مارنے کے لئے اپنی چپّل نکالی تھی....." بریک تو ارمان کو جب لگی جب اس نے انوشے کے ہاتھ میں چپّل دیکھی تھی...." ارے نہیں نہیں..." میں بتا رہا ہوں اور وہ بھی ڈیٹیلس سے..." وہ بیٹھتا بولا.. اور بتانے لگا.." تمہیں یاد ہے اُن آنٹی کا جو جعفر بھائی کی شادی میں مانیہ کے آگے پیچھے بار بار چکّر پر چکّر لگا رہی تھی.." اس نے انوشے کو یاد دلانے کی کوشش کی تھی..." ہاں تو" وہ اکھڑتی بولی.." تو یہ کہ اُن لوگوں کو ہماری مس پرفیکٹ پسند آ گئی ہے.." اور اُنہونے اپنے بیٹے جو آجکل لندن میں بہت اچھی جوب کر رہا ہے.." اس کے لیے رستہ لے کر آئے ہیں۔۔۔" اور تمہیں پتہ ہے.." آغا جان نے رستہ پکّا بھی کر دیا اور شادی کی تاریخ بھی دے دی اُن لوگوں کو...." اور شادی عید کے دو دن بعد کی رکھی گئی ہے.." وہ خوش ہوتے بولا تھا...." لیکن یہ انوشے کے لئے ایک شاکڈ سے کم نہیں تھا..." اور ہاں اس دن تمہاری بھی رخصتی کی تاریخ رکھی گئی ہے... ارمان نے اُسکے سر پر ایک اور دھماکہ کیا تھا..." اور سچ میں ہی یہ دھماکہ انوشے کی دنیا کو ہلانے کے لیے کافی تھا...." کیا ا ا ا ا ا ا......................؟ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی...." اور چلّائی تھی....."اُسکی آواز اتنی تیز تھی کی پڑوسی بھی جاگ جائے...." ارمان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے بولا..." یار انوشے مرواؤگی کیا......؟ آہستہ سے نہیں بول سکتی.....ت تمہیں ک کس نے بتایا ..." اب انوشے کی آواز لڑکھڑائے..." کس نے کا کیا مطلب "میں یہ اپنے ان گنہگار کانوں سے سن کر آیا ہوں...... وہ اُسکی بات کو نظر انداز کرتی بولی تھی..." اور پھر وہاں سے سرپٹ بھاگی تھی آغا جانِ کے کمرے کی طرف....." جہاں ساری پلٹن آغا جان کے کمرے کے باہر کان لگائے کھڑی تھی......"سوائے مانیہ اور نعمان کے...." کیونکہ مانیہ اور نعمان کے لیے یہ نیوز ایک دھماکے سے کم نہیں تھی......" وہ اچّھے سے جانتی تھی...."وہ بھی کان لگا کر اندر کئے جانے والے فیصلے کو سننے لگی...." جہاں اُن کی زندگی تباہ کرنے کہ فیصلہ لیا جا رہا تھا.." ایسا انوشے مادام کا سوچنا تھا....
×××××××××××××××
ہمدانی ویلہ»»»»»»
اسرائیل ہمدانی اور اُنکی زوجہ محترمہ آمنہ ہمدانی کے چار بچے تھیں " جن میں سب سے بڑا بیٹا عارف ہمدانی( آغا ہمدانی)، چھوٹی بیٹی، فاطمہ ہمدانی، سمینہ ہمدانی" اور سب سے چھوٹی گھر بھر کی لاڈلی شائستہ ہمدانی تھی۔۔۔۔۔اسرائیل ہمدانی بہت ایماندار تھے اور سب سے محبّت کرنے والے شخص تھے اُنکا اپنا بز نس کی دنیا میں بہت نام تھا" آغا ہمدانی نے اپنے بیٹے اور بیٹیوں میں کبھی فرق نہیں سمجھا تھا.." اُنہونے اپنے سبھی بچّوں کو تعلیم دلوائی تھی اور پھر انکی شادی کر کے اپنے فرض سے نبٹ گئے تھیں.." عارف ہمدانی نے اپنے بابا کے بعد بز نس سنبھالا تھا۔۔ اسرائیل ہمدانی نے عارف ہمدانی کی شادی اپنے دوست کی بیٹی ریحانہ سے کر دی.." اور عارف سے چھوٹی جو جو تین بیٹیاں تھی اُن میں سے دو کی شادی خاندان میں ہی کی تھی" فاطمہ ہمدانی کا نکاح اپنے چاچا کے بیٹے عشا ابراہیم سے کر دیا" سمینہ ہمدانی کا نکاح زبیر ابراہیم یعنی عشا کے چھوٹے بھائی سے کیا تھا.." اب بچی انکی لاڈلی بیٹی شائستہ ہمدانی...." اور اُنہونے اپنی بیٹی شائستہ ہمدانی کا نکاح اُن کی پسند خلیل سے کیا تھا....سب اپنے اپنے گھروں میں خوشی سے زندگی گزار رہے تھے " اللّٰہ کا دیا اُن کے پاس سب کچھ تھا.."اور ایک اس خوشی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی..." اسرائیل ہمدانی اور اُن کی زوجہ محترمہ آمنہ ہمدانی ایکسیڈینٹ میں خالق حقیقی کو پیارے ہو گئے.... تب سے ساری ذمےداری عارف ہمدانی کے کندھوں پر آ گئی تھی.....اور یہ زمّےداری وہ اپنے بابا کی طرح بہت ایمانداری سے نبھا رہے تھے...
××××××××××××××××××××
اسرائیل ہمدانی کے جانے کے بعد آغا ہمدانی ہی" ہمدانی ویلہ کے بڑے تھیں.." آغا ہمدانی ( عارف ہمدانی اور انکی زوجہ محترمہ ریحانہ بیگم) کے دو بچّے تھیں بڑا بیٹا جرّار ہمدانی " جرّار سے نو سال چھوٹی بیٹی مانیہ ہمدانی " مانیہ کے پیدا ہوتے ہی ریحانہ بیگم کا انتقال ہو گیا تھا.." اس لیے ان دونوں بہن بھائیوں کی پرورش شائستہ ہمدانی نے کی تھی کیونکہ مانیہ انوشے کی ہی ہم عمر تھی...(فاطمہ ہمدانی اور عشا ابراہیم ) کو بھی اللّٰہ نے تین بچوں سے نوازا تھا سب سے بڑا بیٹا نعمان ،چوٹی بیٹی زرتاشہ اور سب سے چھوٹی بیٹی نادیہ" نعمان انوشے اور مانیہ سے دو سال بڑا تھا جبکہ زرتاشہ انکی ہم عمر تھی اور نادیہ اُن دونوں سے دو سال چھوٹی اور شفق کی ہم عمر(سمینہ ہمدانی اور زبیر ابراہیم) کو اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا بڑا بیٹا ارشمیل جو آجکل لندن میں تھا چھوٹا ارمان اور سب سے چھوٹی بیٹی شفق... ارشمیل نعمان کا ہم عمر تھا جبکہ ارمان مانیہ کا ہم عمر تھا(شائستہ ہمدانی اور خلیل )کو اللہ نے ایک بیٹی انوشے عطا کی تھی.... لیکن کہتے ہیں نا جب اللہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس سے اپنی سب سے پسندیدہ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز سے محروم کرتا ہیں اور بیٹی یعنی اللّٰہ کی رحمت بھی اللّٰہ کی پسندیدہ چیز میں سے ایک ہے " اور ایسے ہی اللّٰہ نے خلیل سے اپنی رحمت یعنی انوشے کو چھین کر محروم کیا تھا.." جب انوشے ایک سال کی تھی تب خلیل نے بیٹے نا ہونے پر شائستہ کو طلاق دے دی تھی.." اور یوں شائستہ ہمدانی کو اُنکا بھائی عارف ( آغا ہمدانی اپنے پاس ہمیشہ کے لئے ہمدانی ویلہ لے آئے تھے.." اب سب مل جل کر ہمدانی ویلہ میں رہتے تھے.." جب انوشے پانچ سال کی ہوئی تو آغا ہمدانی نے انوشے کا نکاح اپنے چودہ سالہ بیٹے جرّار سے کر دیا۔۔۔تاکہ انکی بہن بنا کوئی ٹینشن کے خوشی سے زندگی بسر کر سکے...... یوں سب مل جل کر ہمدانی ویلہ میں خوشی سے رہنے لگے تھیں..جیسے جیسے انوشے بڑی ہو رہی تھی اسکو مرد ذات سے ڈر بڑھ رہا تھا..."اور بڑھتا بھی کیوں نا آخر کو اُسکے اپنے بابا نے جو چھوڑ دیا تھا.." اسکو لگتا سب مرد ذات دھوکے باز ہوتی ہے..."اسکو لگتا تھا کہ مرد شادی کرتے ہے اور مطلب نکلنے پر چھوڑ دیتے ہیں..."لیکن اُسکی سوچ صرف گھر سے باہر رہنے والے مردوں کے لیے تھی..." ایک دن وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ناشتا کر رہی تھی جب اسکو کچھ یاد آیا.." اور وہ ناشتا کرتی اپنی ماما سے بولی.." ماما یونیورسٹی سے سبھی سٹوڈینٹ دو دن کے ٹور پر کشمیر جا رہے ہیں.." میں اور مانیہ بھی جانا چاہتے ہیں.." کیا ہم چلے جائیں.." وہ اپنی ماما سے اب اجازت مانگ رہی تھی.." اُسکی بات کو سن کر جرّار کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا.." کوئی ضرورت نہیں....آج تک ہمارے گھر کی لڑکیاں گھر سے باہر نہیں گئی... اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہیں پر بھی جانے کی .." جرّار بولا تھا..." کون سا وہاں پر ہم بسنے والے ہے.." صرف دو دن کا ہی تو ٹور ہے..." اسکو بلکل بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جرّار اسکو منا کر سکتا ہے... وہ جرّار سے بولی تھی...." ہاں تو میں کون سا بول رہا ہوں تم وہاں پر بسنے کے لئے جا رہی ہو " میں منا کر رہا ہوں تو کوئی نہیں جائیگا .." اب اور بہس نہیں۔۔۔۔وہ اتنا بول کر وہاں سے جانے لگا .." تب انوشے غصے سے چلّاتی بولی تھی..." آپ ہوتے کون ہے میرے بارے میں فیصلہ لینے والے...؟ آپ اپنی بہن کو منا کر سکتے ہیں۔۔۔لیکن مجھے نہیں " سمجھے میرا صرف آپ سے کزن کا رشتہ ہے.." اس لیے اچھا ہوگا آپ اپنے کام سے کام رکھیں.." ابھی میرے لیے فیصلہ لینے والی میری ماما ہے... جرّار کو تو اُسکے بولنے کے انداز پر غصّہ ہی آ گیا تھا.." اور وہ غصے سے بولا اچھا میں کون ہوتا ہوں...؟ یہ بات بھی تم نے صحیح کہی تو سنو .." وہ دو قدم اُسکی طرف بڑھاتے بولا " میں تمہارا شوہر وہ شوہر جس کا نکاح تمہارے ساتھ بچپن میں ہی ہو گیا تھا.." اور رہی فیصلہ لینے کی بات تو وہ اب سے آٹھ سال پہلے میرے ہاتھ میں دے چکے ہیں تمہارا ہر فیصلہ لینے کا اختیار صرف اور صرف میرے ہاتھ میں ہے سمجھی اُمّید کرتا ہوں بہت اچھے سے سمجھ آ گئی ہو گی آخر میں یہ کہتا وہاں سے چلا گیا تھا" اور انوشے تو بس سکتے کے حالت میں شائستہ بیگم کی طرف دیکھتی رہ گئی تھی..." شاہستہ بیگم نے جب یوں کھڑے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تو وہ انوشے کے پاس جانے لگی " اور انوشے نے ہاتھ کے اشارے سے انکو اپنے پاس آنے سے روکا تھا.." شائستہ بیگم وہیں جم سی گئی تھی..." م ماما م میں آپ پر اتنی بوجھ ہو گئی تھی کہ اپنے میری زندگی کا اختیار اور کسی کے کندھوں پر ڈال دیا.." اگر اتنی ہی بوجھ تھی تو مجھے کسی یتیم خانے ۔میں چھوڑ آتی کم سے کم میں آپ پر یا کسی اور پر بوجھ تو نہ بنتی " انوشے کی بات پر شائستہ بیگم تڑپ ہی تو گئی تھی... اور وہ انوشے کی طرف لپکتی بولی.." ن نہیں میری بچی نہیں تم مجھ پر بوجھ نہیں تھی..." بس ماما بس یہ بوجھ نہیں تو کیا ہے۔۔۔؟ وہ اتنا بولی تھی اور وہاں سے دوڑتی اپنے روم میں آ گئی تھی اس دن جرّار ہمدانی بھی اُسکی نفرت کی لسٹ میں شامل ہو گیا تھا" اس دن وہ زندگی میں پہلی اور آخری بار اتنا روئی تھی کہ وہ رونے کی وجہ سے کئی دن تک بیمار رہی تھی.." لیکن اس نے ایک عہد دل میں کر لیا تھا کہ وہ جرّار ہمدانی سے کبھی شادی نہیں کریگی چاہے کچھ بھی ہو جائے.." لیکن انسان کے عہد کرنے نا کرنے سے کیا ہوتا ہے" ہوگا تو وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے....اس دن سے آج تک انوشے خلیل جرّار ہمدانی سے نفرت کرتی آ رہی تھی.." جو کی بلا وجہ کی نفرت تھی.."اور کچھ نہیں....پر اُسکی سمجھائے کون...؟
×××××××××××××××××××××
انوشے دروازے سے کان لگائے کمرے کے اندر ہونے والی گفتگو سننے کی بہت کوشش کر رہی تھی.." لیکن اسکو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا..."اس پلٹن کی وجہ سے " کیونکہ ان لوگوں کی کهسر پھسر ہی بند نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔"ارے آپی تھوڑا سائڈ میں ہو نا ہم کو بھی سننا ہیں"شفق نے انوشے کو ایک طرف ہونے کو کہا تھا..."انوشے نے شفق کی طرف گھور کر دیکھا..." ا آپی دیکھے آپ ہی دیکھے چلو نادیہ ہم چلتے ہے..." وہ یہ بولتی وہاں سے سرپٹ بھاگی تھی..."وہ اب دھیان سے اندر ہونے والی گفتگو سننے لگی۔۔۔۔۔
×××××××××××××××××××
السلام وعلیکم.." زرّار نے اندر آکر سب پر ایک نظر ڈالتے وہاں بیٹھے ہر شخص کو سلام کی تھی..."اور اپنے بابا ( آغا جان ) کے پاس پہنچ کر اُنکے ہاتھوں پر بوسہ دیتے بولا.." آغا جانی اپنے مجھے یاد کیا...؟ سب خیریت تو ہے ....؟ ہاں بیٹا سب ٹھیک ہے.." اور تم بتاؤ کام کیسا جا رہا ہے...؟ الحمدللہ...! آغا جانی االلہ کے کرم سے بہت اچھا..."بس آپ سب کی دعائیں چاہئے۔۔۔۔۔۔بیٹا ہم سب کی دعائیں آپ سب کے ساتھ ہے.." اللّٰہ آپ سب کو کامیاب کریں.. آمین ثمہ آمین.." آغا جان دعائیں دیتے بولے تھے " جس پر سب نے آمین کہا تھا......"جیری بیٹا..." ہم سب نے آپ کو اس لیے بلایا ہے" کیونکہ اب ہم اپنی بیٹی کی رخصتی چاہتے ہیں..." اگر آپکو اعتراض نا ہو تو..." وہ جرّار کی طرف دیکھتے بولے تھیں...." جیسی آپ سب کی مرضی آغا جانِ جرّار نے بہت سلیقے سے جواب دیا تھا.." ہم کو آپ سے یہی اُمّید تھی بیٹا.." آغا جان خوش ہوتے ہوئے بولے " ایک اور بات بیٹا .." وہ ابھی کچھ بولتےاس سے پہلے جرّار کے موبائل کی رنگ بجی تھی....ٹرین ن ن ن ٹرین ن ن...."اسنے ہاتھیوں تھامے ہوئے موبائل کی سکرین کی طرف دیکھا..."جہاں اُسکے سیکریٹری امجد کالنگ لکھا جگمگا رہا تھا.....امجد ..." سوری آغا جان میں آپکی بات بعد میں آکر سنوں گا..."وہ معافی مانگتے بولا...."کیوں بیٹا آپ کہیں جا رہے ہو کیا....؟ شائستہ بیگم فکرمندی سے پوچھا تھا.." جی پھپپوں جانی ابھی میری لندن کی فلائٹ ہے.."آفس کے کام سے جا رہا ہوں وہاں پر دو دن بعد آؤنگا اور شائد اور زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے..." وہ اپنی پھپوں کو دیکھتے بولا تھا..." اچھا اچھا کوئی بات نہیں چلے پھر بات کر لیتے ہیں.." آپ جاؤ اور دھیان سے بیٹا ..." آغا جان بات کو سمجھتے اُنہونے جرّار سے کہا تھا.." اور ساتھ ہی ساتھ دھیان رکھنے کی بھی تنقید کی گئی تھی..ٹھیک ہے آغا جانِ آپ سب بھی اپنا خیال رکھیۓ گا.."خدا حافظ وہ یہ بولتا دروازہ کھول کر باہر آ گیا تھا..." جیسے ہی وہ باہر نکلا .." اُسکی ٹککر اتنی شدید تھی کہ بچاری انوشے کو تو چکّر ہی آنے لگے تھیں..." وہ اپنے سر کو سہلاتی بولی."دیکھکر نہیں چل سکتے آنکھیں لے رہے ہو یا بٹن۔۔اتنی بڑی بڑی اللّٰہ نے دو آنکھیں دی ہے"وہ بھی دیکھنے کے لیے .." نا کہ سمبھال کر رکھنے کے لیے.." وہ بولتی ہوئی جب شروع ہوئی تو رکنے کا نام ہی نہیں لیا" بریک تو اسکو تب لگی تھی جب جرّار اسکا ہاتھ پکڑے اپنے روم میں لے آیا تھا... اور پیچھے سے دروازہ لوک کرتے اسکو دیوار سے لگا گیا تھا.." ہاں تو بیگم آپ کیا بول رہی تھی آنکھیں بٹن وہ اُسکے سحرانگیز سراپے کو دیکھتے بولا .. اور انوشے تو اُسکے اس اقدام پر ہی بیہوش ہونے کو تھی.."آ آپ ہٹائیں .." مجھے جانا ہے..؟ وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی.." ارے ارے ایسے کیسے...؟ بھئی پہلے اپنی رخصتی کی وجہ سے اپنا منہ میٹھا تو کر لو اور مجھے بھی کرواؤ وہ اُسکی آنکھوں میں جھانکتے بولا.." جیسے ان آنکھوں میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو..انوشے نے رخصتی کے نام پر اسکو بہت تیز دھکّا دیا تھا "اور پھر چلّاتی بولی تھی..."آپکو کیا لگتا ہے میں رخصتی کروا لوں گی.." کیا لگتا ہے آپکو میں آپکے ہاتھوں خود کو ذلیل کرواوں گی.....
ہہہہہہ .....یہ سب آپکے خرافات خیالات ہے..."
میرے نہیں سمجھے...آپکا کہنا ہے کہ آپ میرے شوہر ہے .." لیکن میں نہیں مانتی نا تو اس نکاح کو اور نا ہی آپکو اپنا شوہر مانتی میں..."اور میں جا رہی ہوں آغا جانِ کو منا کرنے کہ میں آپکے بیٹے کو پسند نہیں کرتی.." وہ بول کر وہاں سے جانے لگی تھی" جب پیچھے سے جرّار نے اُسکی کلائی پکڑی اور اسکو اپنی طرف پکڑ کر کھینچا تھا " جس سے انوشے کی کمر جرّار کے سینے سے جا لگی اب نظارہ یہ تھا انوشے کا ایک ہاتھ پیچھے کو مڑا ہوا تھا اور کمر جرّار کے سینے سے لگی تھی.... آں ں ں ں..... ماما.." درد کی وجہ سے وہ کرّاہ اٹھی.…."آنکھوں سے آنسوں نکلنے کو بےتاب تھے....جب جرّار اُسکی گردن پر اپنے لب رکھتے ہوئے بولا تھا..." شوق سے منا کرو .." یہ کہتے ہوئے جرّار نے انوشے کی اپنے لبوں کا سفر گردن سے کندھوں تک طے کیا" اور پھر خُمار لہزیں میں بولا..." لیکن اس سے پہلے میں اپنا حق لوں گا.." اور مجھے میرا حق لینے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا...." پھر چاہے خود آغا جانِ بھی منا کرے گے تو بھی میں نہیں روکوں گا.." کیونکہ تم میری بیوی ہو اور اللہ نے مجھے شریعت کے مطابق پورا پورا حق دیا ہے..." وہ بول رہا تھا اور یہاں انوشے کا جسم اُسکے قربت سے کامپ رہا تھا"لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی آخر چھ فٹ لمبے مضبوط جسم کے شخص کے سامنے "چاہے وہ کتنا بھی زور لگا لیتی آخر کو تھی تو وہ نازک سی لڑکی ہی..."دھیرے دھیرے جرّار اُسکی قربت میں اُلجھا جا رہا تھا..." ہوش تو اسکو جب آیا " جب اُسکے موبائل کی رِنگ بجی...."اس نے انوشے کا ہاتھ چھوڑا اور اُسکی طرف دیکھتے بولا..." میرا انتظار کرنا.." میں بہت جلد واپس آؤں گا..." وہ بول تو ایسے رہا تھا جیسے انوشے کو اسکا صدا سے انتظار رہتا ہے"جو وہ اب کرتی....." انوشے نے اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھیں۔ اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے دشمن کو دیکھا......" اور پھر بولی..." جرّار ہمدانی..." تم نے آج جو کیا ہے نا..." اللہ کرے آپ مر جاؤ..." یا پھر میں..." اور آپ سوچ رہے ہوگے ایسا کرنے سے آپ مجھے اپنا بنا لیں گے تو آپ کچھ بھی کر لے...." لیکن میں پھر بھی اپنے فیصلے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گی...بلکل بھی نہیں...... وہ نفی میں سر ہلاتے وہاں سے روتی ہوئی اپنے روم کی طرف بھاگی تھی...... وہ لاکھ نفرت کرتی جرّار سے لیکن اس اقدام کی اسکو پھر بھی اُمّید نہیں تھی...بلکل بھی یقین نہیں ہو رہا تھا اسکو...کہ جرّار جیسا مغرور شخص ایسا بھی کے سکتا ہے..اس نے ایک بار خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آخری بار رو رہی ہے... لیکن وہ کیا جانتی تھی کہ وہ خود اپنے مقدّر میں رونا لکھوا چکی ہے......وہ روتی ہوئی سو گئی تھی.......اس بات سے بے خبر کہ آنے والی زندگی میں اُسکی زندگی کیسے اتھل پتھل ہو کر رہ جائے گی.......
×××××××××××××××××××
رمضان شروع ہو چُکے تھے زرّار ابھی تک لندن سے نہیں آیا تھا...." ایک طرف مانیہ نے رو رو کر اپنا بُرا حال بنایا ہوا تھا تو دوسری طرف نعمان کا بھی بہت برا حال ہوگیا تھا...." انوشے تو اُن دونوں کو دیکھ کر ہی اپنا غم بلا وجہ کا لگنے لگا تھا....."براؤن آنکھیں جو کبھی ہنستی مسکراتی رہتی تھی آج اُنکے چاروں طرف کالے کالے ہلکے پڑ گئے تھے"بےترتیب سے اُلجھے بال اُسکی زندگی کو اُلجھا ہونے کا پتہ دے رہا تھا..." بے ترتیب سے کپڑے اُسکی زندگی کا اتھل پتھل ہونے کا پتہ لگ رہا تھا "بہت کمزور سی ہو کر رہ گئی تھی وہ..." وہ کہیں سے بھی مانیہ نہیں لگتی تھی....." سب گھروالے سوچ رہے تھے کہ مانیہ کی یہ حالت رمضان کی وجہ سے ہے " لیکن وہ کیا جانتے تھیں کہ اس حالت کی کوئی اور وجہ ہے......."سب ینگ پارٹی اچھے سے جانتی تھی مانیہ کی حالت کی وجہ پر وہ سب کر ہی کیا سکتے تھیں سوائے جرّار کے انتظار کے علاوہ...." انوشے سے اپنی جان سے پیاری بہن جیسی کزن کی یہ حالت نہیں دیکھی گئی." وہ وہاں سے اٹھ کر باہر پورچ کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئی تھی..." اج موسم اور دن سے بہت مختلف تھا .." ٹھندی ٹھندی ہوائیں اپنا زور پکڑ رہی تھی " ایسا لگ رہا تھا جیسے سردیوں کے آنے کی شروعات ہو گئی ہو،۔۔۔" کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ مئی کا مہینہ ہے" ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں برش رہی تھی" ایسے میں وہ باہر پورچ میں ڈوپٹہ سے بے نیاز گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی" تب گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی..." اور پھر جوتوں کی آواز جیسے کوئی چل کر اُسکی طرف ہی آ رہا ہو...."انوشے تم یہاں پر کیوں بیٹھی ہو...؟جرّار نے انوشے کے پاس جا کر اس سے پوچھا ..."انوشے نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔۔۔" اور جرّار کی طرف دیکھا.." سوجھی ہوئی ہیزل گرین آنکھیں آج بہت اُداس تھی اور اسکا رونے کا پتہ دے رہی تھی.."ہے ترتیب سا حلیہ اُلجھے بال گول چہرے پر چھائی اُداسی" جرّار نے بے یقینی سے انوشے کے حلیہ کی طرف دیکھا.." یہ تو کہیں سے بھی انوشے نہیں لگ رہی تھی.."کیا ہوا انو.....؟ اس نے فکرمندی سے پوچھا...." وہ کھڑی ہوئی"اور اُسکے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی بولی"آئے میرے ساتھ."جرّار کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تھا.."وہ اُسکی تاکید کرتا اُسکے پیچھے چل دیا...."اب وہ دونوں مانیہ کے کمرے میں تھے..." انوشے وہاں جا کر ایک طرف کھڑی ہو گئی تھی.."وہاں سب ینگ پارٹی تھی" جرّار نے جب مانیہ کی طرف دیکھا " تو اسکو جھٹکا لگا تھا..." یہ تو وہ مانیہ نہیں تھی جسکو وہ ابھی پندرہ دن پہلے ہنستی مسکراتی کو چھوڑ کر گیا تھا....." یہ سب کیا ہے.؟ اور نعمان کہاں پر ہے..؟ وہ اُن سب کی طرف اُلجھی نظروں سے دیکھتے بولا..." تب بھی کوئی کچھ نہیں بولا تھا..." کوئی کچھ بتائے گا مجھے یا فر ایسے ہی مجسمہ بن کر کھڑے رہینگے..." اب کِ بارویوہ تھوڑے غصے سے بولا تھا...." ب بھائی میں بتاتی ہوں..." نادیہ بولی تھی"اور پھر "ا"سے "ب"تک اسکو ساری کہانی بتا دی...." جرّار اپنی جانِ سے پیاری بہن کے برابر بیٹھتا اسکا ہاتھ تھامتے بولا تھا..." مانی "کیا تم سچ میں نعمان سے محبّت کرتی ہو..؟اتنا پوچھنا تھا کہ مانیہ زاروں قطار رونے لگی تھی.." اور روتی ہوئی بولی.." ب بھائی م میں نہیں رہ سکتی م میں مر جاؤں گی...نہیں پگلی ایسا نہیں بولتے...ابھی تمہارا بھائی زندہ ہے..." بھلے ہی میں اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتا لیکن تمہارے لیے تمہارے جیری بھائی کی جان بھی حاضر ہے...." اور اب تم سب ٹینشن فری ہو جاؤ "کیونکہ آج سے یہ ٹینشن میری....میں کرتا ہوں آغا جان سے بات وہ یہ کہتا روم سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔اور اُسکے پیچھے پیچھے انوشے بھی گئی۔۔۔۔۔۔۔اتنا تو انوشے کو بھی یقین تھا کہ جرّار کبھی جھوٹ نہیں بولتا"وہ جو بھی کہتا ہیں وہ کر گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔
×××××××××××××××××××
مما کیا آغا جان کو اپنے گھر پر نہیں لڑکے نہیں نظر آئے " جو گھر کی بیٹیوں کا باہر رستہ لگا رہے ہیں.."نعمان آج بہت دنوں بعد اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا....." کھلا ٹراؤزر بلیان میں پیشانی پر بکھرے بال بڑھی ہوئی شیو اُداس سی آنکھیں وہ بہت کمزور ہو کر رہ گیا تھا" فاطمہ بیگم تو اپنے بیٹے کی اس حالت پر تڑپ ہی اٹھی تھی..."اب وہ اپنی ماں کی گود میں سر دیئے فاطمہ بیگم (اپنی ماما ) سے سوال کر رہا تھا..."بچّہ ہم کیا کر سکتے ہیں.." مانیہ بھائی کی بیٹی ہے" اور ایک باپ اپنی بیٹی کے حق میں کوئی اچھا ہی فیصلہ لے سکتا ہیں۔۔۔"لیکن ماما میں مانیہ کے بغیر نہیں رہ سکتا.
میں مر جاؤنگا ماما.. میں مر جاؤں گا..." میں پل پل تڑپ رہا ہوں " آپ دیکھ رہی ہیں میری حالت...
"وہ اپنی ماں کی گود میں سر دیئے رونے لگا تھا...
" اور فاطمہ بیگم تو اپنے بیٹے کو دیکھ کر رونے لگی تھی..."نعمان مجھے تم سے یہ اُمّید بلکل بھی نہیں تھی..." پیچھے سے آواز آئی.." فاطمہ بیگم اور نعمان نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تھا.." جہاں جرّار کھڑا تھا..." اسنے جلدی سے چہرا صاف کیا اور بمشکل مسکراہٹ چہرے پر سجھائے جرّار کے پاس آیا تھا.." السلام وعلیکم بھائی....." اسنے سلام کی " وعلیکم اسلام ۔۔۔۔" یہ چہرے پر مسکراہٹ کیوں..؟ جب غم چھپانا نہیں آتا.."
I know...(میں جانتا ہوں)
وہ اسکو شانوں سے تھامتا اپنی پھپپوں فاطمہ بیگم کے پاس آیا تھا.." اور سلام کرتا وہی صوفے پر بیٹھ گیا.." جانتا ہوں کہ محبّت آزمائش مانگتی ہے " لیکن یار آزمائش میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا.."نعمان تمہیں پتہ ہے اللہ اپنے بندے سے آزمائش کیوں لیتا ہے.." اسنے پوچھا تھا.." نہیں ..؟ نعمان بول کر چپ ہوا... " پتہ ہے" اللّٰہ آزمائش آزیت دینے کے لیے نہیں" کچھ سکھانے کے لئے دیتا ہے، جتنی جلدی سیکھ لیں گے اتنی ہی جلدی دور ہوگی ....اور ہم بندے سوچتے ہے کہ اللہ نے بس ہمارے مقدر میں ہی سارے غم، ساری پریشانیاں دے ڈالی.." یہ نہیں سوچتے اللّٰہ نے " ہم سے کوئی محبوب چیز چھینی ہے تو ضرور کوئی اللّٰہ کی مصلحات ہوگی..." پر نہیں" ہم انسانوں کی فطرت ہے " ہر چیز میں اللّٰہ کی ناشکری ادا کرنا.." وہ نعمان کو سمجھا رہا تھا..."بھائی میں سمجھ رہا ہوں آپ کیا بولنا چاہ رہے ہیں.." لیکن آغا جان نے ان لوگوں کو ہاں کر دی ہے.." اب وہ پریشان دکھائی دینے لگا تھا..." تم فکر مت کرو.." انشاءاللہ " اللّٰہ جو بھی کرے گا بہتر کرے گا.." جرّار نے اسکو تسلّی دی..." بس وہ گردن ہلا کر رہ گیا تھا..." نعمان وہاں سے جا چکا تھا.." پھپپوں میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں"جرّار فاطمہ بیگم کی طرف دیکھتے بولا." ہاں پوچھو بیٹا.." اُنہونے اجازت دی.." اگر میں اپنی مانی کا رستہ نعمان سے طے کر دوں تو آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا.." وہ ایک اُمّید سے انکو دیکھتے بولا تھا.."ارے بیٹا کیسا اعتراض .." اور مانی مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز ہے.."بلکہ وہ میری ہی بیٹی ہے" فاطمہ بیگم خوش ہوتے بولی تھی.." تو ٹھیک ہے..! پھر آپ کل ہی آ جائے..." تب تک میں بابا سے بات کرتا ہوں.." وہ بول کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اجازت لے کر وہاں سے چلا گیا تھا..." اب جو کرنا تھا اسکو کرنا تھا.." آخر کو اُسکی بہن تھی" اور بھی جان سے عزیز" اس بات سے بےخبر" وہ جہاں دوسروں کی خوشیاں تلاش کر رہا ہے..." وہیں اُسکی خوشیاں ختم ہونے والی ہے.....جس آزمائش کا چیپٹر وہ نعمان کو پڑھا رہا ہے"وہی آزمائش اسکا مقدّر بننے والی ہے۔۔۔۔وہ کہتے ہیں نہ۔۔۔
"زندگی آزمائشوں کا سمندر ہے،
کسی سے لے کر آزمایا جاتا ہے،
تو کسی کو بےتحاشہ دے کر آزمایا جاتا ہے،
بس کہیں صبر کی اور کہیں شکر کی آزمائش ہے،،
ملیحہ (مجیبہ) چودھری
اب دیکھنا یہ ہے ۔۔کیا جرّار اپنی آزمائش کو شکر سے لیگا یا پھر صبر سے۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ اپنی آزمایش میں کامیاب ہو پائیگا...؟"کیا اسکو اُسکی محبّت مل پائے گی......؟ یا پھر ایسے ہی وہ خالی ہاتھ رہ جائے گا........